واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت  شیخ عبدالاحد سر ہندی

رحمتہ اللہ علیہ

حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  سرہند میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے والد کا نام زین العابدین تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ مجھے کسی ایسے بزرگ کے پاس لے چلیں جن کو روحانیت میں اعلٰی مقام حاصل ہو۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے والد صاحب نے کہا کہ بیٹا بزرگ گھر بیٹھ کر نہیں ملتے  ان کو تلاش کیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  نے اپنے والد سے کہا تو پھر آپ کسی ولی کامل کی تلاش میں میری مدد کیجیے تاکہ میں اپنی منزل پاسکوں۔

ایک روز حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کو خواب میں ایک بزرگ نظر آئے جو ان کوکہہ رہے تھے کہ شیخ عبدالاحد جلدی سے گنگوہ چلے آؤ۔ صبح بیدار ہوئے تو یہ خواب اپنے والد صاحب کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ اللہ نے تمہاری رہبری کے سامان پیدا کردیے ہیں کیونکہ گنگوہ میں شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  بہت بڑے اور بلند پایہ بزرگ ہیں۔ اب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اڑ کر گنگوہ پہنچ جاؤں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے والد آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی اس بے چینی سے بڑے پریشان تھے اس لئے انہوں نے گنگوہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ شیخ زین العابدین آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو لیکر گنگوہ روانہ گئے۔

جب دونوں باپ بیٹا گنگوہی کے آستانے میں داخل ہوئے تو وہاں شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کی ہدایت پر ان کا خادم باری باری سب نئے آنے والوں کو خانقاہ کے اندر داخل کررہا تھا کہ شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  نے خادم سے کہا کہ آج نئے آنے والے مہمانوں میں دو فاروقی سلسلے کے مہمان بھی ہیں ان کو میرے پاس بھیجو۔ چنانچہ جب خادم نے آپ کو پکارا تو حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  اور ان کے والد  زین العابدین ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے اور یہ سمجھے کہ شاید یہ کوئی دوسرے صاحبان ہونگےلیکن جب خادم نے دوبارہ پکارا تو آپ سمجھ گئے کہ آپ کو ہی پکارا جا رہا ہے۔ چنانچہ آپ اندر تشریف لے گئے۔

شیخ عبدالاحد رحمتہ اللہ علیہ  کو دیکھ کر شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا کیوں بھئی یہاں آنے کے لئے اپنے والد کو کیوں تنگ کیا۔ اگر یہاں آنے کی اتنی جلدی تھی تو اکیلے چلے آتے۔ حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  نے کہا حضرت تنہا آنے کی ہمت نہ تھی۔ اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے والد آپ کو چھوڑ کرواپس سرہند چلے گئے۔ یہاں حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کو ایک علیحدا حجرا دیا گیا جہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ  عبادت کیا کرتے تھے مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی خواہش تھی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو بھی دوسرے درویشوں کے ساتھ رکھا جائے۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے اس کا اظہار حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  سے کیا۔ حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا پہلے آپ علوم دین کی تعلیم کی مکمل کرلیں اور شریعت رسول پر مستحکم ہوجائیں پھر آپ کا شمار ازخود درویشوں میں ہوجائے گا۔ کسی کامل استاد سے اپنی تعلیم مکمل کریں پھر ہمارے پاس حاضر ہوں۔ ہم تم سے حدیث، فقہ، تفسیر اور تصوف کا امتحان لینگے اگر تم اس میں پاس ہوگئے تو پھر تم یہاں رہ سکتے ہو۔

شیخ کا حکم پا کر حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  حصول علم کے لئے سفر پر روانہ ہوگئے اور مختلف جگہوں سے دینی علوم حاصل کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے تفسیر ، حدیث اور فقہ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس گنگوہ پہنچے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو پتہ  چلا کہ شیخ عبدالقدوس رحمتہ اللہ علیہ  اس دارفانی سے رخصت ہوچکے ہیں تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  حضرت عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ  کے صاحبزادے شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فاتحہ پڑھی۔ شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ  نے فرمایا ہمیں بابا نے حکم دیا تھا کہ جب عبدالاحد واپس آئے تو اس سے  حدیث،تفسیر،فقہ اور تصوف میں اس کا امتحان لے کر اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دینا۔ حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  ہر امتحان دینے کے لئے تیار تھے چنانچہ شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ  نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا امتحان لیا۔ حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کے جوابی دلائل اور وضاحتیں سن کر شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ  حیران رہ گئے اور اسی وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو سلسلہ چشتیہ اور سہروردیہ کا خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو رہنے کی اجازت دے دی۔

حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  زہدوتقویٰ میں بڑی ہی معروف ہستی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ  سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ایک مدت گوشہ نشینی میں گزاردی۔ اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے حدیث، فقہ اور تفسیر کی تعلیم دینا شروع کردی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  مسجد میں بیٹھ کر سینکڑوں شاگردوں کو زیور تعلیم سے آراستہ فرماتے تھے۔ ایک روز جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  سکندریہ میں وعظ فرمارہے تھے تو ایک خاتون تقریر ختم ہونے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میری چھوٹی بہن آپ رحمتہ اللہ علیہ  سے بہت متاثر ہے اور دینی تعلیم کی بڑی شوقین ہے ۔ہم سب گھر والوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے اوصاف دیکھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری بہن کی شادی آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے ساتھ ہوجائے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے یہ باتیں سننے کے بعد کہا کہ میں اکثر جذب و سکر کی حالت میں ہوتا ہوں شادی کرنے کے بعد عائلی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکتا اس لئے میں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لیکن  اس خاتون نے ہمت نہیں ہاری اور سنت رسول سے شادی کی اہمیت کے حوالے سے ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو قائل کرلیا اور یوں حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کی شادی انتہائی خاموشی اور سادگی سے ہوگئی۔ شادی کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ  اپنی زوجہ محترمہ کولے کر گنگوہ سے سرہند آ گئے۔

حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  نے ایک رات بڑا عجیب خواب دیکھا کہ پوری کائنات پر تارریکی چھائی ہوئی ہے۔ عجیب الخلقت جانوروں کے علاوہ سور ، بندر اور ریچھ انسانوں پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ایک طرف بدصورت انسانوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور ان کو ایک بڑی قدوقامت والا شخص سزا دے رہا ہے۔ اس دوران اچانک ایک نور حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کے سینے سے نکلتا ہے اور پوری دنیا روشن ہوجاتی ہے۔ پھر بجلی کوندتی ہے جس سے سارے درندے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پھر سارا میدان صاف کردیا جاتا ہے اور اس پر ایک تخت بچھا دیا جاتا ہے جس پر ایک نورانی شکل والے بزرگ  آ کرتشریف فرماہو جاتے ہیں اور ان کے اردگرد نورانی شکل والے لاتعداد بزرگ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر فرشتوں کی ایک فوج ایک طرف سے آتی ہے اور سب کی زبان پر قراآن مجید کی ایک ہی آیت ہے جس کا مطلب ہے کہہ دو حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کو بھاگنا ہی تھا۔ اس آواز کے ساتھ ہی بہت سے لوگ ایک سمت سے روتے ہوئے آتے ہیں اور صاحب مسند کے آگے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور وہ ان کو سزائیں دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کی آنکھ کھل گئی آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے اپنا یہ خواب اپنی بیوی کو سنایا تو انہوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو مشورہ دیا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کو اپنا خواب بیان کریں وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو بہتر مشورہ دینگے۔

حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  کے پاس پہنچے اور انہیں اپنا خواب سنایا۔ حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  مسکرائے اور فرمایا کہ اس مرتبہ تمہارے ہاں جو فرزند ہوگا وہ کفر وظلمت کا خاتمہ کریگا اور دین کی اشاعت و تبلیغ کو جلا بخشے گا۔ جب وہ پیدا ہو تو فوراً مجھے اطلاع دینا اور اس وقت تک اس کے منہ میں کوئی چیز نہ ڈالنا جب تک میں نہ پہنچ جاؤں۔ حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  یہ خبر سن کر خوشی سے سرشار ہوکر گھر واپس چلے گئے۔

 جب حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ  کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  نے جاکر حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  کو اطلاع دی چنانچہ حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے ساتھ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے گھر تشریف لے آئے۔ حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  نےکیمیائی نظریں نومولود پر مرکوز کر دیں اور انگشت شہادت بچےکےمنہ میں دےدی اور فرمایا یہ بچہ تجدیددین اور روحانی فیض خلق خدا کو پہنچانےکیلئےپیدا کیا گیا ہے۔ نومولود کافی دیر تک حضرت شاہ کمال رحمتہ اللہ علیہ  کی انگلی چوستا رہا۔ حتیٰ کہ شاہ کمال  رحمتہ اللہ علیہ بولے! بس کر بیٹا کچھ ہماری نسل کیلئےبھی رہنےدےتونےتو ہماری نسبت لےلی ہی۔ یہی وہ بچہ تھا جو بعد میں مجدد الف ثانی کہلائےاور جنہوں نےعہدساز اور جلیل القدر بادشاہ کو اپنےآگےسرنگوں کر لیا۔

آپ ۱۷ رجب ۱۰۰۷ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کا مزار اقدس سرہند سے شمال کی جانب ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے۔